تصانیف حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ... ایک تعارف

از: مولانا مدثر جمال تونسوی

 

 

الله رب العزت جس انداز سے کسی کو نوازنا چاہیں خوب نوازتے ہیں۔ بعض عظیم المرتبت اور عبقری شخصیات کو علم و عمل ، معرفت و حکمت اورجہدمسلسل و سعی پیہم کی جامعیت اور مقام قطبیت سے نواز کر قوموں اور نسلوں کی ہدایت وراستگی کی راہیں کھول دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کی زندگی کی محنت کا اصل میدان کردارو عمل رہا ہے۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے تمام زندگی قلم سے زیادہ اپنے کردار اور عملی جدوجہد کے نقوش صفحات تاریخ پر ثبت فرمائے ہیں۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے درس و تدریس ،مجاہدات اور آزادی وطن و غلبہ اسلام و مسلمین کیلئے کی جانے والی جفاکشانہ و پیہم جدوجہد، آرام وسکون کیلئے بمشکل چند گھنٹے فراہم کرتی تھی ان حالات میں تصنیف و تالیف جس کیلئے فراغت وقت اوریکسوئی قلب ضروری چیز ہے کی طرف کماحقہ کیسے توجہ کی جا سکتی تھی۔ اس لئے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے تصانیف کا کوئی وسیع ذخیرہ نہیں چھوڑا لیکن جو کچھ چھوڑا ہے وہ وسیع اگرچہ نہ کہا جا سکتا ہو مگر عظیم اور وقیع القدر ضرور ہے۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہنے تمام تالیفات انتہائی ضرورت کی حالت میں تحریر فرمائیں لیکن جب لکھا تو اس موضوع کا ایسا حق ادا کیا جس سے ہر تشنہ گام بآسانی اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔

حضرت مدنی  رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ’’نقش حیات‘‘ جو ایک آپ بیتی ہونے کے ساتھ ساتھ تحریکات آزادیٴ ہند کی انتہائی مستند تاریخ ہے، کے علاوہ دیگر تصنیفات اور رشحاتِ قلم یاد گارچھوڑے ہیں، جن میں دستیاب درج ذیل ہیں۔

(۲) الشہاب الثاقب          (۳) اسیر مالٹا                          (۴) متحدہ قومیت اور اسلام

(۵) ایمان و عمل              (۶) مودودی دستور کی حقیقت            (۷) سلاسل طیبہ

(۸)مکتوبات شیخ الاسلام        (۹) خطبات صدارت

الشہاب الثاقب

اس کتاب کا پورا نام’’الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ ہے ۔ یہ کتاب حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کی پہلی تصنیف ہے اور آپ رحمة اللہ علیہ نے یہ کتاب قیام مدینہ منورہ کے دوران تحریر فرمائی۔ پس منظر اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا یہ ہے کہ جب ہندوستان کے ایک عالم مولوی احمد رضا خان صاحب نے اکابر علماء دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ، مولانا رشید احمدگنگوہی رحمة اللہ علیہ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمة اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ و دیگر چند اکابر اہلسنّت و الجماعت کی کتابوں سے عبارتیں ان کے سیاق وسباق سے الگ کرکے اور انھیں اس طرح توڑ موڑ کر لیں اور ان سے اپنے مطلب کے معانی اخذ کر کے علماء حرمین کے سامنے پیش کیا، غرض یہ تھی کہ (معاذ الله) ان حضرت کے ایسے کفریہ عقائد ہیں، لہٰذا آپ ان کے کفر کا فتویٰ دیدیجئے۔ چونکہ اہل عرب، ہندوستان کے علماء سے زیادہ واقف نہ تھے اس لئے انہوں نے سوالات ہی کو سامنے رکھ کرجواب دیدیا اور ان میں بھی اکثر جوابات اس شرط کے ساتھ مشروط تھے کہ اگر واقعی یہ عقائد انہی کے ہیں جن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں تب وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ورنہ نہیں۔ مولوی احمد رضا خان صاحب نے انتہائی چالاکی اور راز داری سے یہ فتاوی حاصل کئے اور بعد میں انھیں حسام الحرمین کے نام سے شائع کردیا۔ حضرت شیخ الاسلام کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو انہوں نے علماء حرمین سے رابطہ کیا اورانہیں اصل صورت حال سے آگاہ کیا۔ علماء حرمین حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ سے بخوبی واقف تھے بلکہ بعض اعیان وعلماء کے صاحبزادے حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے شاگرد بھی تھے۔ جب انہیں یہ صورتحال معلوم ہوئی تو وہ بہت پریشان ہوئے کہ ہمارے ساتھ اتنابڑا دھوکہ کیا گیا۔ اس لئے علماء حرمین نے اپنے اس فتوی سے رجوع کر لیا اور بعض نے کہاکہ ہم نے مشروط فتوی دیا ہے اس لئے اب وہ فتوی ان صاحب کیلئے کارگرنہیں ہے ۔غرض اس خوفناک سازش کی صورت میں حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ نے مسلک حق مسلک دیوبند اہلسنّت والجماعت کی حمایت و نصرت اور اظہار حقیقت احوال واقعیہ کیلئے ایک تفصیلی کتاب بنام’’الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ تحریر فرمائی۔ اس کا سب سے عمدہ اور حامل افادیت ایڈیشن ’’دارالکتاب لاہور‘‘ سے شائع ہوا ہے۔

اسیرمالٹا

یہ حضرت مدنی  رحمة اللہ علیہ کی دوسری کتاب ہے اور یہ اس وقت لکھی گئی جب آپ کا قلم اور آپ جوان تھے۔ اس لئے اس کتاب میں وہ تمام خوبیاں جمع ہیں جو ایک نوجوان عالم، صاحب عزم و ہمت اور پرجوش داعی کی دعوت یقین ومحکم کی تحریر میں ہونی چاہئیں۔ اس کتاب میں حضرت شیخ الاسلام نے اپنے ہر دلعزیز اور محبوب استاذ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمة اللہ علیہ کی فداکارانہ اور مجاہدانہ زندگی کا ایک ایک گوشہ نمایاں کیا ہے۔ حضرت مولانا عبدالرشید ارشد رحمة اللہ علیہ اس کتاب کے تعارف اور انداز نگارش پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’اس کتاب کے شروع کے چند اوراق میں بہت دلکش اورپسندیدہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے .... اس کے لفظ لفظ سے خلوص ٹپکتا ہے ... اس کے نقطے نقطے میں احساسات کی دبی ہوئی چنگاریاں اور اس کی آنچ محسوس ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی غور وفکر کی دعوت، صبر واستقلال کا درس، یقین محکم اور عمل پیہم کی تلقین، تشکیل سیرت اور تعمیر حیات کا ایمانی پہلو بھی ہے ... اس کے بعد مولانا کا قلم حالات و کوائف اور تجربات و مشاہدات کی اتھاہ گہرائیوں میں بہت احتیاط کے ساتھ اتر گیا ہے اورمولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کی روانگی حجاز سے لیکر اسارت مالٹا اور ہندوستان کی واپسی تک تسلسل واقعات کی ایسی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ ہندوستان، عرب ممالک،ترکی کی مظلومیت اور اتحادیوں کے روباہی کرشمے اورظالمانہ رویے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔‘‘

نقش حیات

حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی تصنیفات میں یہ کتاب اپنے حجم اور اہمیت و افادیت و شہرت میں سب سے بڑھی ہوئی ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب سات سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں مختلف بڑے بڑے اشاعتی اداروں نے اس کو شائع کیا اور اپنی پہلی اشاعت سے آج تک اس کی مقبولیت ، مرجعیت اور نافعیت اسی طرح مسلم اور افادیت کی حامل ہے۔ اب تک کی اشاعتوں میں سب سے اچھا اور عمدہ طباعت سے مزین ایڈیشن’’مجلس یاد گار شیخ الاسلام کراچی‘‘ کا شائع کردہ ہے۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة اللہ علیہ اس کتاب کی تالیف کا سبب بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’ ۱۹۴۴ء میں جب آپ رحمة اللہ علیہ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی بسر کر رہے تھے، توبعض مخلص خدام اور بے تکلف احباب نے آپ رحمة اللہ علیہ سے سوانح حیات قلمبند کرنے کی درخواست کی ... اوّل اوّل آپ رحمة اللہ علیہ نے انکار کیا لیکن آخر کار جب عرض و گزارش نے اصرار پیہم کی شکل اختیار کر لی تب مجبور ہو کر قلم اٹھایا‘‘

کتاب میں حضرت شیخ الاسلام کا اسلوب نگارش بہت ہی سنجیدہ، نہایت جامع اوربہت ہی پاکیزہ ہے۔کتاب میں انگریزی اور اردو کی کتابوں کے حوالہ جات بھی بکثرت پیش فرمائے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کو حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ علوم دینیہ کے علاوہ فن تاریخ پر بھی پوراعبور ہے۔

پہلی جلد میں اپنے حالات کے علاوہ انتہائی تفصیل و وضاحت سے اس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ حضرت شیخ الہند اور دیگر قدسی صفات بزرگوں نے راحت و آرام، درس و تدریس، تعلیم و تربیت، تزکیہ نفس، تالیف و تصنیف، تفسیر و افتاء وغیرہ کے مقدس شاغل سے دست کش ہو کر میدان جہاد و سیاست میں کیوں قدم رکھا اور ہرقسم کے خوف کو پس پشت ڈال کر ظالم و دشمن حکومت انگلشیہ کے بالمقابل صف آراء ہوئے۔

دوسری جلد میں ... تحریک شیخ الہند کے مخفی گوشوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ تحریک کے رجال کار، حکومت موقتہ کے قیام، افغانستان و حجاز کے انقلابات، تحریک شیخ الہند المعروف تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے اسباب اور اسارت مالٹا وغیرہ کے حالات وکوائف اس جامعیت و ترتیب اورموٴثر اسلوب سے درج کئے گئے ہیں جو آج بھی ایک دینی تحریک کے کارکن کیلئے رہنما ہیں اور ہر دینی تحریک کے کارکن کیلئے اس کا مطالعہ کرنا انتہائی ضروری اور مفید ہے۔

متحدہ قومیت اور اسلام

غالباً یہ حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کی آخری تصنیف ہے۔ اس کتاب کے پس منظر کوجاننے سے پہلے اس کے موضوع اور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے موقف کوجاننے کیلئے اسی کتاب میں تحریر کردہ یہ عبارت پڑھئے:

’’ہماری مراد متحدہ قومیت سے اس جگہ وہی متحدہ قومیت ہے جس کی بنا جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ میں ڈالی تھی۔ یعنی ہندوستان کے باشندے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں بحیثیت ہندوستانی اور متحد الوطن ہونے کے ایک قوم ہو جائیں اور اس پردیسی قوم سے جو کہ وطنی اور مشترک مفاد سے محروم کرتی ہوئی سب کو فنا کر رہی ہے جنگ کر کے اپنے حقوق کو حاصل کریں اور اس ظالم اور بے رحم قوت کو نکال کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھوڑ ڈالیں‘‘

حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کا یہ مقالہ کس پس منظر میں لکھا گیا اس کو بتلانے کی حاجت نہیں بلکہ دو ہفتے قبل’’القلم‘‘ کے صفحات میں اس حوالے سے روشنی ڈالی جا چکی ہے۔

اس کتا ب کو’’جمعیت پبلی کیشنز لاہور‘‘نے شائع کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے ہر طالب علم اورحضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے ’’نظریہ قومیت‘‘ کی حقیقت اور شرعی حیثیت جاننے کی خواہش رکھنے والے کیلئے یہ ایک انتہائی مستند اور قابل قدر تحقیق ہے۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے اس مقالے میں اپنے نظریہ کو صرف سیاسیات پر مبنی نہیں رکھا بلکہ اس کے بہت سے شرعی دلائل بھی پیش فرمائے ہیں۔ تفصیل جاننے کیلئے قارئین اصل کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

مکتوبات شیخ الاسلام

’’مکتوبات شیخ الاسلام‘‘ چار جلدوں پر مشتمل ہیں ان سب کو تلاش کر کے یکجا کرنا ایک اہم اور دقت طلب کام تھا جسے حضرت شیخ الاسلام کے معتقد و معتمد مولانا نجم الدین اصلاحی صاحب رحمة اللہ علیہ نے مرتب فرمایاہے اور یہ چاروں جلدیں’’مکتبہ رشیدیہ، کراچی‘‘ سے عرصہ دراز ہوا شائع ہو چکی ہیں۔

ان مکتوبات کے مطالعہ کرنے سے اور اس کے موضوعات و مخاطبین کو دیکھنے سے،حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کی ’’جامعیت‘‘روز روشن کی طرح آشکاراہوجاتی ہے۔ مکتوبات میں فقہ و تفسیر، تعلیم و تربیت، تصوف و طریقت اور سیاسیات ہر موضوع پر جچی تلی، مبصرانہ اور ناقدانہ ہر پہلو سے گفتگو کی گئی ہے۔ مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

’’حال و قال والے حضرات ہوں یا براہین و استدلال والے، طالبان مسائل ہوں یا عاشقان دلائل، سب ہی کیلئے اس مختصر مگر جامع ذخیرہ میں سامان سیرابی موجود ہے۔ (حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ نے جب یہ تحریر لکھی تھی اس وقت تک سارے مکتوبات جمع نہیں ہوئے تھے اس لئے اس مجموعہ کو ’’مختصر‘‘ کہا ہے) ان جامع ہدایات سے اگر ایک طرف طریقت و معرفت کے مسائل حل ہوتے ہیں تو دوسری طرف شریعت کے حکمیات پر بھی روشنی پڑتی ہے اور جہاں شریعت و طریقت کے مقامات کھلتے ہیں وہیں سیاست و ادارات اور قومی معاملات کے دقائق بھی واشگاف ہوتے ہیں۔غرضیکہ بیک وقت شریعت و طریقت اور سیاست کے دقیق اور حیات بخش نکتے اس طرح زیب قرطاس ہوگئے ہیں کہ ایک جویائے حقیقت و معرفت ،ایک متلاشی احوال طریقت اور طلب گار شریعت و سیاست کویکساں شفااور سکون روح کا سامان بہم پہنچا سکتے ہیں‘‘

یہ ایک حقیقت ہے کہ مکتوبات مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کی طرح’’مکتوبات شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ‘‘ کی حیثیت بھی بہت بلندہے ۔ یہ مکتوبات رشد و ہدایات کے بے بہا موتی ہیں۔ کاش دیوبند سے نسبت رکھنے والے اور طلبہٴ مدارس دینیہ ان کی طرف کماحقہ توجہ فرمائیں۔تاکہ اکابر کی زندگی کے مختلف گوشوں کا پہنچاننا اور ان پر چلنا آسان ہو۔

مکاتیب کی ایک اہم خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں جس کی شخصیت معلوم کرنی ہو اس کے خطوط دیکھے جائیں۔ خطوط کے آئینہ میں شخصیت کی تصویر اپنے اصلی خدوخال میں صاف جلوہ گر نظرآتی ہے۔ مکتوبات شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے مطالعے کے بعد ہر شخص مولانا رحمة اللہ علیہ کی شخصیت سے متعارف ہو جائے گا اور اسے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ عظمت، پاکیزگی اور علوہمتی کے اعلی مقام پر فائز ہیں (بیس بڑے مسلمان )۔انہی مکتوبات سے پھر دو دیگر مجموعے مرتب کئے گئے ہیں۔(۱)’’معارف و حقائق‘‘حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے داماد مولانا سید رشیدالدین حمیدی صاحب مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد نے تصوف و سلوک، فقہ، تحقیقات علمیہ، عملیات، اذکاروادعیہ، تعبیر الرویا، تاریخ ، سیاسیات اور دیگر متفرق موضوعات پر حضرت کے رشحات قلم کا حسین انتخاب کر کے معارف وحقائق کے نام سے گلدستہ مرتب کیا۔ یہ مجموعہ’’اسلامی کتب خانہ ، کراچی‘‘ سے شائع ہو چکا ہے۔

دوسرا مجموعہ خاص فقہی موضوع کو سامنے رکھ کر حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے نواسے مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نے ’’فتاوی شیخ الاسلام‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا ہے ۔پاکستان میں ’’المیزان، لاہور‘‘ نے اسے شائع کیا ہے۔

 سلاسل طیبہ

یہ ایک مختصر سا کتابچہ ہے مشہور اشاعتی ادارے’’ادارہٴ اسلامیات، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کا موضوع عنوان ہی سے ظاہر ہے ۔ہمارے اکابر الحمدلله چاروں سلاسل طریقت کے حامل تھے حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی  رحمة اللہ علیہ ، قادری، سہروردی، چشتی، نقشبندی چاروں نسبتوں کے امین تھے اور پھر انہی کے دو عظیم خلفاء حجة الاسلام حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ، ابو حنیفہٴ عصر حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ سے یہ چاروں نسبتیں آگے منتقل ہوتی ہوئی حضرت مدنی  رحمة اللہ علیہ کو حاصل ہوئیں۔ اس کتابچے میں حضرت نے صوفیاء کے ان چاروں طریقوں کے اوراد و اشغال اور ان کے منظوم شجروں کو طالبین و سالکین کی آسانی و رہنمائی کیلئے یکجا کر دیا ہے۔

خطبات صدارت

حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ نے ہندوستان میں بہت سے دینی وسیاسی جلسوں کی صدارت فرمائی۔ اور ہر جگہ آپ رحمة اللہ علیہ نے مسلمانوں کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے جس موضوع کو مناسب سمجھا اس حوالے سے ان کی رہنمائی فرمائی اور بغیر کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف کئے قرآن وسنت کی روشنی میں جس بات کو حق جانا اس کا برملا اظہار کیا۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے خطبات حق وصداقت، ہمدردی و خیرخواہی، عزم و یقین اور دعوت جہدوعمل کے جواہر گراں بہا سے لبریز ہوتے تھے ۔یہ خطبات عزیمت و استقامت اور مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کیلئے ایک واضح اور دو ٹوک موقف کے روشن میناروں سے مزین و آراستہ ہیں۔ ان خطبات میں جہاں دوستوں کو بیش از بیش خیر خواہانہ مشوروں اور راہ عمل سے متعارف کرایا گیا ہے وہیں حقیقی دشمن کی عیاری و مکاری اور چالاکی اور بدباطنی کے مکروہ چہرے کے نقاب کو الٹا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انگریز نے کس طرح ملت اسلامیہ کو تاراج کیا اور’’ لڑاوٴ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی میں وہ کیسے کامیاب رہا اور اندریں حالات مسلمانوں کا آزادی وطن اور غلامی سے نجات کیلئے کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے۔ غرض یہ خطبات انتہائی اہمیت و وقعت کے حامل ہیں الله تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا عبدالحمید سواتی صاحب نور الله مرقدہ کوجنہوں نے بڑی محنت و لگن سے یہ خطبات حاصل کئے اور انہیں اپنے اشاعتی ادارے ’’ادارہ نشر واشاعت نصرة العلوم، گوجرانوالہ‘‘ سے شائع کر کے مشتاقان نسبت مدنی رحمة اللہ علیہ کے آرام دل وجان کا سامان بہم کیا۔ یہ خطبات اگرچہ حضرت رحمة اللہ علیہ کی تصنیف نہیں لیکن حضرت رحمة اللہ علیہ ہی کے الفاظ کو تحریر کا جامہ پہنایا گیا ہے اس لئے ان کو بھی حضرت کے مآثر علمیہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔

(۱) مودودی دستور کی حقیقت       (۲) ایمان و عمل

یہ دونوں کتابیں جناب ابوالاعلی مودودی صاحب کی مسلک اہل السنت و الجماعت سے بعض منحرفانہ تحریروں کے جواب اور اصلاح احوال کیلئے لکھی گئیں ہیں۔ مودودی دستور کی ایک شق ’’جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو معیار حق نہ جانے‘‘ کی خطرناکی و گمراہی سے آگاہ کرنے اور’’معیار حق‘‘ کے مسئلے پر بڑی وضاحت کے ساتھ مسلک اہلسنت والجماعت کی حقیقی ترجمانی کیلئے’’مودودی دستور کی حقیقت‘‘نامی کتابچہ تحریر فرمایا۔

اسی طرح مولانا مودودی کی بہت سی تحریرات میں واضح طور پر مرتکب کبیرہ کے حوالے سے ایسی عبارات ملتی ہیں جو انہیں معتزلہ و خوارج کی صف میں لاکھڑا کرتی ہیں حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ایمان و عمل‘‘ میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور ایمان وعمل کا آپس میں کیا اور کس نوعیت کا تعلق ہے اس پر مسلک اہل السنت و الجماعت کی صحیح ترجمانی فرمائی ہے۔’’ایمان و عمل‘‘ نامی یہ مختصر سا کتابچہ جو کم وبیش ایک سو صفحات پر مشتمل ہے۔’’بزم غلام غوث ہزاروی رحمة اللہ علیہ،گوجرنوالہ‘‘ سے کافی عرصہ قبل شائع ہوا تھا نہ معلوم اب بھی دستیاب ہے یانہیں۔اکابر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد فکر قاسمی و مدنی کے حاملین کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو صحیح طور پراکابر سے وابستہ رکھنے کی یہ ایک بہت مفید اور موٴثر صورت ہے کہ ان کے مآثر علمیہ سے بھرپور استفادہ کیاجائے اور ساتھ ہی انہیں محفوظ بھی رکھا جائے ۔ الله رب العزت سے دعاء ہے :

 

احب الصالحین ولست منھم

لعل اللہ یرزقنی صلاحاً

٭٭٭

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء